Friday, November 2, 2012

Amjad Islam Amjad

Amjad Islam Amjad,  (Urdu: امجد اسلام امجد) (born 4 August 1944) is a well-known Urdu poet, drama writer and lyricist from Pakistan. He has written many books including poetry and prose. He has received many awards for his literary work and Screenplay for TV. In which his achievements comprise Pride of Performance and Sitara-e-Imtiaz and several other awards.

 

 

 

 

Biography

Amjad was born in Lahore, Pakistan. His family belong to Sialkot the city where Allama Iqbal and Faiz Ahmed Faiz were born. He received his secondary education in Lahore, and graduated from Government Islamia College Civil Lines, Lahore. He qualified for Masters of Arts degree in Urdu literature from Punjab University. He began his career as a lecturer in M.A.O College Lahore. He worked as a director at Pakistan Television Corporation in 1975 to 1979, before returning to the College.

Career

In 1989, Amjad was appointed as Director General of Urdu Science Board. He has also worked as a project director of the Children Library Complex.
Amjad is the writer of many drama series for Pakistan Television Corporation including Waris. He has written many columns, translation, criticism and essays whereas his main focus is writing Nazms. Among his most famous dramas are Waris, Dehleez, Samandar, Raat, Waqt and Apnay Loug.
In June 2008, he joined Urdu newspaper Daily Express and writes column with the title of "Chasham-e-Tamasha".

Awards

  • Pride of Performance
  • Sitara-e-Imtiaz
  • 16 Graduate Awards
  • 12 PTV awards for the best writer

Bibliography

  • Fishar
  • Barzakh
  • Us par
  • Satwan dar
  • Zara phir say kehna
  • Seher aasar
  • Barish ke aawaz
  • Itnay khwab kahan rakhoon
  • Mairay bhe hain kuch khwab
  • Hum us kay hain.
Amjad Islam Amjad, Novels Reed Free Urdu Novels, Best Novel Forever Download Free Urdu Novels Download Urdu Novels of All Writers Naseem Hijazi Novels Free Online Read Urdu Novels Urdu Novel by Sadaat Hassan Minto, A Hameed Novels Free Online Read. at http:islamiclab.blogspot.com

امجد اسلام امجد

ذاتی کوائف
نام :  امجد اسلام امجد
والد کا نام :  محمد اسلام
پیدائش :  4 اگست1944 
تعلیم:  ایم اے (اردو) امتیاز کے ساتھ
بیگم :  فردوس امجد
شادی :  23مارچ1975
اولاد:  ۱۔   روشین امجد - جواب عاقب انور کی بیگم اور انور مسعود کی بہو ہے-
بچے:  ز یبندہ عاقب - فاطمہ عاقب
۲۔  تحسین امجد - جو اب ناصر منیف قریشی کی بیگم ہے-
بچے : آئتین علی - فزا علی
۳۔  علی ذیشان امجد

پیشہ وارانہ سرگرمیاں
(الف) ایسوسی ایٹ پروفیسر‘ ایم اے او کالج لاہور
1968-75 & 1979-97
(ب) ڈپٹی ڈائریکٹر (ڈراما اینڈ لٹریچر) ‘
پنجاب کونسل آف آرٹس‘ لاہور
1975-79
(ج) ڈائریکٹر جنرل‘ اردو سائنس بورڈ لاہور
1997-99
(د) پروجیکٹ ڈائریکٹر‘ چلڈرن لائبریری کمپلکس لاہور(تاحال)

ایوارڈ اور اعزازات
1- ستارہء ِ امتیاز 1998
2- پرائڈ آف پرفارمینس 1987
3- شاعری کی کتاب فشار پر نیشنل ہجرہ (اقبال) ایوارڈ 1403 ھ
(پاکستان میں یہ اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ ہے)
4- رائٹرز گلڈ ایوارڈ
کتاب عکس 1976 (بہترین ترجمہ)
5- بیسٹ پلے رائٹ پاکستان ٹیلی ویژن ایوارڈ
برائے سال 1999-1998-1984- 1980 - 2001
6- کے اے سی ایوارڈ 1991 نثر کی بہترین کتاب ”نئے پرانے“کے لیے- 1991
7- خصوصی پریذیڈنٹ ایوارڈ برائے ٹی وی سیریل” وارث“ 1980 ئ
8- نگار ایوارڈ 1987-1982 بہترین فلم رائٹر
9- اگفا ایوارڈ 1987
10- بولان ایوارڈ 1995-1987
11- ٹی وی سیریل ”وارث“ چینی زبان میں چھپا
12- ٹی وی سیریل ”وارث“ چینی زبان میں ڈب ہو کر چائینز ٹی وی نیشنل نیٹ ورک پر ٹیلی کاسٹ ہوا
13- پی ٹی وی سلور جوبلی ایوارڈ 1989
14- گریجویٹ ایوارڈ2000-1975 ء (16 مرتبہ)
15- تھیسس کی تکمیل‘
(۱) ملتان یونیورسٹی 1989
(ب) بہاول پور یونیورسٹی 1999) )
(ج) قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد 2000 ئ
(د) جناح یونیورسٹی کراچی 2003
(ر) جموں یونیورسٹی - پی ایچ ڈی کا مقالہ - (زیر تکمیل)
16- ممبر‘ بورڈ آف گورنرز‘ پنجاب کونسل آف آرٹس
17- ممبر‘ فلم سنسر بورڈ
18- ممبر‘ایگزیکٹو کمیٹی الحمرا آرٹس کونسل لاہور
19- ممبر‘ پنجاب گورنمنٹ کمیٹی برائے رائٹرز فنڈ
20- ممبر‘ بورڈ آف گورنرز قائداعظم لائبریری‘ لاہور
21- ممبر‘ بورڈ آف گورنرز‘ اکیڈمی آف لیٹرز‘ اسلام آباد
22- ممبر مجلس ترقی ادب‘ لاہور
امجد اسلام امجد
احمد ندیم قاسمی
امجد کی صلاحیتیں بے شمار ہیں- وہ ایک ایسا شاعر ہے جو نظم بھی لکھتا ہے‘ غزل بھی کہتا ہے ‘ گیت بھی تخلیق کرتا ہے‘ غیر زبانوں کی نظموں کے منظوم ترجمے بھی کرتا ہے- فلسطینی اور افریقی نظموں میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے انتہائی شدید جذبوں کی تمام پرتوں کو اردو نظموں میں پورے کمال فن سے منتقل کرتا ہے- اس نے تنقیدیں بھی لکھی ہیں- کتابوں پر تبصرے بھی تحریر کیے ہیں- اخباری کالم بھی چھپوائے ہیں اور فلم کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے ہیں- اس نے سفرنامہ بھی لکھ ڈالا ہے اور ڈرامے کا تو خیر وہ دولہا ہے- اس کے ٹی وی ڈرامے ” وارث“ نے پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی جو تہلکہ مچایا تھا‘ اس کا ارتعاش اب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے- بعد میں بھی اس نے ”سمندر“ اور ”رات“ کے سے ٹی وی سیریل لکھ کر ثابت کر دیا کہ ایک سچا تخلیق کار جب بھی کسی موضوع کو چھوتا ہے‘ اسے امر بنا دیتاہے- پھر امجد نے کامیاب سٹیج ڈرامے بھی لکھے ہیں جن کا نمایاں عنصر بھرپور طنز اور مہذب مزاح ہوتاہے- بہت کم ڈرامے امجد کے سٹیج ڈراموں کی طرح ہر پہلو سے کامیاب ہوئے ہوں گے-
مگر مجھے جو امجد عزیز ہے‘ وہ شاعر امجد ہے- خود امجد سے بھی پوچھیے تو وہ یہی کہے گا کہ میرا سرمایہ تخلیق میری شاعری ہے- امجد کی سی لامحدود شاعرانہ صلاحیتوں کے مالک شعراءہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں- مجھے نوجوان باصلاحیت اہل قلم کی بہت محبت حاصل ہے اور میں ان کے فن کو پرستار انِ فن کے سامنے پیش کرنے میں مسرت اور فخر محسوس کرتا ہوں- میں نے ان نوجوانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے چنانچہ جب میں کہتا ہوں کہ اردو شعر و ادب کا مستقبل شاندار ہے تو اتنے اعتماد کے ساتھ میں یہ دعویٰ اس لیے کرتا ہوں کہ یہ مستقبل امجد کے سے باشعور‘ سلیقہ مند اور کھرے اور سچے شاعروں کے ہاتھ میں ہے- امجدشاعروں کے اس طبقے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جن کا فن ان کے بیمار ذہن کی کارفرمائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو زندگی کی حقیقتوں سے بدکتے ہیں اور جس شاعر کے ہاں انقلاب اور ارتقاءکے نقوش ہوتے ہیں اور جوغلط روایات کے ساتھ پنجہ آزما نظر آتے ہیں‘ انہیں مقصدیت اور حسن ِفن کے ساتھ بدسلوکی کے مرتکب قرار دے کر رد کر ڈالتے ہیں- امجد ان بیدار مغز اور توانا دل و دماغ رکھنے والے شعراءکے طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرنے کی تمنا کے اظہار سے نہیں شرماتے اور جو ”محبت کی ایک نظم“ بھی لکھتے ہیں تو جنسی اختلال کا تماشا نہیں دکھاتے بلکہ ایک ایسے تہذیب یافتہ اور گداز یافتہ عشق کی واردات کو پیش کرتے ہیں جس سے اگر انسانی کردار محروم ہو جائے تو باقی گوشت پوست کا صرف ملبہ رہ جائے جو اتفاق سے سانس بھی لے رہا ہو-
بعض نقادوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں شاعری کرنے والے لوگ کچھ اس طرح شعر کہتے ہیں کہ کہیں سے ان کی پاکستانیت کے خدو خال ظاہر نہیں ہوتے- یہ مفروضہ سراسر غلط تھا اور مطالعے کی کمی یا تفہیم کی کمی یا قلب میں وسعت کی کمی نے یہ مفروضہ گھڑا تھا- امجد اسلام امجد کے کلام نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے پاس ایسے شاعر بھی موجود ہیں جو پاکستانیت پر فخر کرتے ہیں‘ اسے اپنا ایک اعزاز سمجھتے ہیں اور ان کے لفظ لفظ میں آئینے نصب ہیں جن میں ہماری سرزمین کے خد وخال اور یہاں رہنے والوں کے عزائم اور ولولے اور محسوسات پوری وضاحت کے ساتھ منعکس ہیں-
وطن سے امجد کی اس بے پایاں محبت نے اس سے بڑی خوبصورت اور مکمل اور غیر فانی نظمیں کہلوائی ہیں مثلاً ”ایک سوال“ ہی کو لیجئے:۔
قریہ قریہ پوچھ رہی ہے خلقت ایک سوال
درد و کرب سے بھرا ہوا یہ سوال امجد کی شدید نوعیت کی پاکستانیت سے ابھرا ہے- بظاہر یہ نظم ایک سوال ہے مگر دراصل یہی نظم اس سوال کا جواب بھی ہے کہ اب ہماری تاریخ کے بنجر پن کو ختم ہونا چاہیے اور اس مٹی کے بیٹوں کی بدحالی کے خوفناک تسلسل کو توڑنا چاہیے-
امجد ایک اور نظم میں کہتا ہے:۔
اگر یہ حقیقت میں فصل زمستاں ہے
تو کس سے پوچھوں
کہ جو اتنے موسم گئے اور آئے
سبھی کی شباہت زمستاں سی کیوں تھی؟
اس طرح وہ تاریخ کے بنجر ماہ و سال کا ماتم کر رہا ہے مگر یہ ماتم منفی نہیں ہے اثباتی ہے- وہ انہی کھنڈروں سے نئی تعمیروں کا انسپیریشن حاصل کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ :۔
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے.... رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا

No comments:

Post a Comment

Comments on FB