وہ ایک یتیم بچہ تھا.. اس کے چچا نے اس کی پرورش کی تھی.. جب وہ بچہ جوان ھوا تو چچانے اونٹ ' بکریاں غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی تھی..
اس نے اسلام کے متعلق کچھ سنا تو دل میں توحید کا شوق پیدا ھوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کرسکا..
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا.. " مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ھوتی ھے اور آپ کب مسلمان ھوتے ھیں لیکن آپ کا حال وھی پہلے جیسا چلا آرھا ھے ...
میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا.. مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ھوجاؤں..
چچا نے جواب دیا دیکھ ! اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین قبول کرنا چاھتا ھے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رھنے دوں گا.. "
اس نے جواب دیا.. " چچاجان ! میں مسلمان ضرور ھوں گا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع قبول کروں گا.. شرک اور بت پرستی سے بیزار ھوچکا ھوں.. اب آپ کا جو منشاء ھے کریں اور جو کچھ میرے قبضہ میں مال و زر وغیرہ ھے سب کچھ سنبھال لیجئے.. میں جانتا ھوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ھے اس لیے میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں کرسکتا.. "
اس نے یہ کہہ کر ان کے دیے کپڑے بھی لوٹا دیے اور ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھ لی.. پھر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ھوا اور کہا.. " میں مومن اور موحد ھوگیا ھوں.. محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جانا چاھتا ھوں.. ستر پوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ھے مہربانی کرکے کچھ دے دیجیے.. "
ماں نے ایک کمبل دے دیا.. اس نے کمبل پھاڑا ' آدھے کا تہبند بنالیا ' آدھا اوپر کرلیا اور مدینہ کو روانہ ھوگیا..
علی الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے ٹیک لگا کر انتظار میں بیٹھ گیا.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مسجد میں آئے ' اسے دیکھ کر پوچھا..
"کون ھو..؟ "
کہا.. "میرا نام عبدالعز'ی ھے.. فقیر و مسافر ھوں طالب ھدایت ھو کر آپ کے در پر آپہنچا ھوں.."
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. " آج سے تمہارا نام عبداللہ ھے.. "ذوالبجادین" لقب ھے.. تم ھمارے قریب ھی ٹھہرو اور مسجد میں ھی رھا کرو.. "
یوں عبداللہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں شامل ھوگئے.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قرآن پاک سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق وشوق اور خوشی و نشاط سے پڑھا کرتے..
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نفل نماز پڑھ رھے ھیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کررھا ھے کہ دوسروں کی قرآت میں مزاحمت ھوتی ھے.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. " عمر ! اسے کچھ نہ کہو.. یہ تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ھے.. "
عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ھونے لگی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دعا دیتے ھوئے فرمایا..
" الٰہی ! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ھوں.. "
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا.. " یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں تو شھادت کا طالب ھوں.. "
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. " جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ھی ھوگے.. "
تبوک پہنچ کر یہی ھوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کرگئے..
بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ھے کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ھے.. رات کا وقت تھا.. پہلے وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ھاتھ میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ان کی لاش لحد میں رکھ رھے تھے.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے فرما رھے تھے..
" اپنے بھائی کو میرے قریب کرو.."
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ھاتھ سے رکھیں اور پھر دعا فرمائی..
" اے اللہ ! میں ان سے راضی ھوا ' تو بھی ان سے راضی ھوجا.. "
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں..
"کاش ! اس قبر میں میں دفن کیا جاتا.."
📚بحوالہ: مدارج النبوۃ.. جلد 2.. صفحہ 90۔91