Thursday, November 1, 2012

Ahmad Faraz

Ahmad Faraz (Urdu: احمد فراز, born Syed Ahmad Shah (Urdu: سید احمد شاہ) on 12 January 1931 in Kohat,) was a Pakistani Urdu poet. He was acclaimed one of the modern Urdu poets of the last century. 'Faraz' is his pen name, (in Urdu takhalus). He died in Islamabad on 25 August 2008. He was awarded Hilal-e-Imtiaz, Sitara-i-Imtiaz and after his death Hilal-e-Pakistan by the government.

Biography

Faraz was born in Kohat, Pakistan to Syed Muhammad Shah Barq. His brother is Syed Masood Kausar.He moved to Peshawar with his family. He studied in famous Edwards College, Peshawar and received Masters in Urdu and Persian from Peshawar University
During his time in college, Faiz Ahmad Faiz and Ali Sardar Jafri were the best progressive poets, who impressed him and became his role models. Ethnically a Sayyid, Ahmed Faraz studied Persian and Urdu at the Peshawar University. He later became lecturer at the Peshawar University.

Career

Literary

Faraz has been compared with Faiz Ahmad Faiz, holds a unique position as one of the best poets of current times, with a fine but simple style of writing. Even common people can easily understand his poetry.
In an interview with Rediff he recalls how his father, once bought clothes for him on Eid. He didn't like the clothes meant for him, but preferred the ones meant for his elder brother. This lead him to write his first couplet:
:سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
:لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
Sab kay waste laye hein kaprye sale se
Laye hein mere liye qaidi ka kambal jail se
(He brought clothes for everybody from the sale)
(For me he brought a blanket from jail)

Political

Ahmad Faraz was arrested for reciting poems that criticised military rulers in Pakistan during the Zia-ul-Haq era. Following that arrest he went into a self-imposed exile. He stayed for 6 years in Britain, Canada and Europe before returning to Pakistan, where he was initially appointed Chairman Pakistan Academy of Letters and later chairperson of the Islamabad-based National Book Foundation for several years. He has been awarded with numerous national and international awards. In 2006, he returned the Hilal-e-Imtiaz award he was given in 2004.
About his current writings he says: "I now only write when I am forced to from the inside. Maintaining a tradition established by his mentor, the revolutionary Faiz Ahmad Faiz, he wrote some of his best poetry during those days in exile. Famous amongst poetry of resistance has been "Mahasara". Faraz was also mentioned by actor Shahzada Ghaffar in the Pothwari/Mirpuri telefilm "Khai Aye O".

Death

Faraz died from kidney failure in a local Islamabad hospital on 25 August 2008. His funeral was held on the evening of 26th, by many admirers and government officials at H-8 Graveyard, Islamabad, Pakistan.

Samples of poetry

A sample of his poetry is:
Nazm: Khwaab martay naheen Khwaab martay naheen
Khwaab dil hain, nah aankhen, nah saansen keh jo
Rezaa, rezaa huwe to bikhar jaayen ge
Jism kii maut se ye bhii mar jaayen ge

English translation.
Dreams do not die
Dream are not heart, nor eyes nor breath
Which shattered, will scatter
Die with the death of the body
  1. احمد فراز

  2. آزاد دائرۃ المعارف، وکیپیڈیا سے
  3. :چھلانگ بطرف رہنمائی, تلاش
  1. احمد فراز

    احمد فراز, ٹورنٹو 2005
    تخلص فراز کمیونسٹ
    پیشہ اردو شاعر, لیکچرر
    قومیت پاکستانی
    نژادیت پشتون سید
    شہریت پاکستانی
    تعلیم ایم اے اردو, ایم اے فارسی
    مادر علمی پشاور ماڈل سکول
    جامعہ پشاور
    لکھائی دور 1950 - 2008
    صِنف اردو غزل
    موضوعات عشق , تحریک مزاحمت
    ادبی تحریک پروگریسو رائٹرز موومنٹ/ڈیموکریٹک موومنٹ
    نمایاں اعزاز(ات) ہلال امتیاز
    ستارہ امتیاز
    نگار ایوارڈ
    اولاد 3 بیٹے: سعدی, شبلی اور سرمد فراز
    اہل و عیال سید محمد شاہ برق (والد)
    سید مسعود کوثر (بھائی)



  2. احمد فراز کوہاٹ، پاکستان میں پیدا ہونے والے اردو شاعر تھے۔
  1. فہرست

    • 1 حالات زندگی
    • 2 مجموعہ کلام
    • 3 نمونہ کلام
    • 4 بیرونی روابط
  2. حالات زندگی

  3. احمد فراز (4 جنوری 1931 - 25 اگست 2008) ء میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوۓ ۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لۓ فیچر لکھنے شروع کیے ۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ "" تنہا تنہا "" شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی ۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ "" درد آشوب ""چھپا جس کو پاکستان رائٹرز گڈز کی جانب سے " آدم جی ادبی ایوارڈ "" عطا کیا گیا ۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوۓ ۔ انہیں 1976 ء میں اکا دکی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا ۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبورا جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔
  4. آپ 2006 ء تک "" نیشنل بک فاؤنڈیشن ""کے سربراہ رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں "" نیشنل بک فاؤنڈیش "" کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔ احمد فراز نے 1988 ء میں"" آدم جی ادبی ایوارڈ "" اور 1990ء میں"" اباسین ایوارڈ "" حاصل کیا ۔ 1988 ء مین انہیں بھارت میں "" فراق گورکھ پوری ایوارڈ "" سے نوازا گیا ۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا ، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں ""ٹاٹا ایوارڈ "" ملا۔
  5. انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے ۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے ۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "" احمد فراز کی غزل "" ہے ۔ بہاولپور میں بھی "" احمد فراز ۔فن اور شخصیت "" کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا ۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی ،ہندی،یوگوسلاوی،روسی،جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں ۔
  6. احمد فراز جنہوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انہوں نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انہیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیے جس کے بعد احمد فراز کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی۔
  7. سنہ دوہزار چار میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انہیں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔
  8. مجموعہ کلام

  9. تنہا تنہا
  10. درد آشوب
  11. شب خون
  12. نایافت
  13. میرے خواب ریزہ ریزہ
  14. بے آواز گلی کوچوں میں
  15. نابینا شہر میں آئینہ
  16. پس انداز موسم
  17. سب آوازیں میری ہیں
  18. خواب گل پریشاں ہے
  19. مودلک
  20. غزل بہانہ کرو
  21. جاناں جاناں
  22. اے عشق جنوں پیشہ
  23. نمونہ کلام

  1. اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتبابوں ميں مليں
    مت ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي يہ خزینے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں
    غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں
    تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں
    آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں
    اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں ملیں
  2. میرے صبر کی انتہا کیا پوچھتے ہو فراز وہ مجھ سے لپٹ کر رو رہا تھا کسی اور کے لیے۔

No comments:

Post a Comment